Yusra Khalid

Add To collaction

اس پر بھی دشموں کا کہیں سایہ پڑگیا

اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا

جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا

غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا

خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب وہی مجھ سے اکڑ گیا

بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا ادھڑ گیا

کس کس کو اپنے خون جگر کا حساب دوں
اک قطرہ بچ رہا ہے سو وہ بھی نبڑ گیا

یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بددماغ یہاں بھی بچھڑ گیا

کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا

اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اجڑ گیا

   2
0 Comments